اَعمالِ صالحہ کی قبولیّت کی فکر
بیشک اللہ تعالیٰ کے خلیل سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد رب تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے پہلی دعا کی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ؕاِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ -...
4/14/20241 min read
اَعمالِ صالحہ کی قبولیّت کی فکر
اللہ پاک اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے اُنہیں کچھ اَحکام عطا فرماتا ہے، پھر کرم فرماتے ہوئے اُنہیں وہ اَحکام پورے کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے، جب بندے اُسی کی عطا کردہ توفیق سے اُس کے احکام پر عمل کرتے ہیں تو وہ اپنی رضا کے ساتھ ساتھ دونوں جہانوں کی مزید نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے۔
اللہ پاک نے ہمارے دلوں کو نورانیت عطا کرنے کے لئے ہمیں ایک ماہ بھوک پیاس برداشت کرنے کا حکم دیا، پھر اِس حکم کو پورا کرنے کی توفیق عطا کی اور کرم بالائے کرم کہ جیسے ہی ایک ماہ مکمل ہوا تو عید کے روز اس کی رحمت مزید جوش پر آئی اور اُس نے اپنے بندوں کو اِنعام و اِعزاز سے نوازا۔
قبولیت کی امید اور عدمِ قبولیت کا خوف
جسے باری تعالیٰ نے رمضان المبارک میں اچھے اَعمال کی توفیق سے نوازا، رمضان المبارک کے بعد اُس کی یہ سوچ ہونی چاہئے کہ میں نے رمضان المبارک میں جو بھی کارہائے خیر کیے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دستگیری نہ فرمائے تو میرے اَعمال اِس قابل نہیں کہ اُنہیں اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ یہ قوی امید بھی ہونی چاہیے کہ میں نے جیسی بھی نیکیاں کی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمائے گا۔
اللہ پاک نے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے اور اچھے کاموں میں پیش پیش رہنے والے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ(60) اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(61) (المؤمنون: 60، 61) اور وہ جنہوں نے جو کچھ دیا وہ اس حال میں دیتے ہیں (جو اچھا عمل بھی کریں اِس حال میں کرتے ہیں)کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں ۔
اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف بیان فرمایا کہ وہ اللہ پاک کی راہ میں جو کچھ زکوٰۃ و صدقات دیتے ہیں یا جو نیک اعمال بجالاتے ہیں ، اس وقت ان کاحال یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے اعمال رد ہی نہ کر دئیے جائیں ، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۳۲۷)
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس آیتِ کریمہ سے متعلق پوچھا: کیا اِس آیت سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب نوشی کرتے ہیں یا چوری کرتےہیں؟ فرمایا: لَا یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ! وَلٰکِنَّھُمُ الَّذِیْنَ یَصُوْمُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ وَیَتَصَدَّقُوْنَ وَھُمْ یَخَافُوْنَ اَنْ لَّا تُقْبَلَ مِنْھُمْ (اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ) (جامع ترمذی، حدیث: 3175) یعنی اے صدیق کی بیٹی! اِس آیت میں چور اور شرابی مراد نہیں، بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں ادا کرتے ہیں اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں پھر بھی اُنہیں خوف ہوتا ہے کہ قبولیت سے محروم نہ رہ جائیں۔ یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں۔ ( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۸، الحدیث: ۳۱۸۶)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نیکی کرنا اور ڈرنا، کمالِ ایمان کی علامت ہے۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت کرتے اور جو بھی عمل کرتے دل میں خوفِ خدا رہتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب تعالٰیکی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں کے بارے میں خوف زدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرتے اور خواہشات اور شبہات سے بچتے تھے، اس کے باوجود وہ تنہائی میں اپنے نفسوں کے لئے روتے تھے۔
لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں کو مطمئن، خوش اوربے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفوودرگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں گویا ان کا گمان یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور پہلے بزرگوں کو بھی حاصل نہ تھی۔ اگر یہ بات محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے تو ان بزرگوں کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں قرآن پاک ان کے دلوں میں ایسے پرانا ہوجائے گا جیسے بدن پر کپڑے پرانے ہو جاتے ہیں ، ان کے تما م کام لالچ کی وجہ سے ہوں گے جس میں خوف نہیں ہوگا، اگر ان میں سے کوئی اچھا عمل کرے گا تو کہے گا یہ مقبول ہوگا اور اگر برائی کرے گا تو کہے گا میری بخشش ہوجائے گی۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۴)
یہ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آج سے تقریباً 900 سال پہلے کے حالات لکھے ہیں اور فی زمانہ تو حالات اس سے کہیں زیادہ نازک ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور نیک اعمال کے سلسلے میں اپنے بزرگوں کی راہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔ (ماخوذ از تفسیر صراط الجنان، سورۃ المؤمنون)
نیک عمل کی قبولیت کی اہمّیّت
نیک عمل کی قبولیت کتنی ضروری ہے؟ اللہ تعالیٰ کے خلیل سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد رب تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے پہلی دعا یہ کی : رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ؕاِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرۃ: 127) اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ،بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔
اندازہ کیجئے ! اللہ پاک کے برگزیدہ بندے رب تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کس قدر محنت کرتے تھے، پھر بھی فکر مند ہوتے تھے کہ قبول ہوجائے۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم لوگ نیکیاں تو کچھ خاص کرتے نہیں، مگر بے فکر یُوں ہیں جیسے قبولیت کی سند حاصل کر لی ہو۔ ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں نیکی کی تھی مگر وہ نیکی قبول بھی ہوئی ہوگی یا نہیں اس کی ہمیں پرواہ نہیں ہوتی حالانکہ جو نیکیاں ہم نے کی ہوتی ہیں وہ بہت کم ہوتی ہیں، جبکہ اس کے برعکس گناہ جن کی تعداد ہماری نیکیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے انہیں ہم بھلادیتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم نے شاید ہی کوئی گناہ کیا ہو، اور اگر کوئی گناہ ہوا بھی ہو گا تو اللہ پاک معاف فرمادے گا۔ یادرکھئے! اپنی نیکیوں کی قبولیت اور گناہوں کی بخشش کی فکر کرنا ایک بندۂ مومن کے لئے بے حد ضروری ہے۔
گناہ یاد رکھنے کی اہمّیّت
حضرت عبد الرحمٰن بن زیاد رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام تشریف فرما تھے، سامنے سے ایک شخص آتا ہوا دِکھائی دیا، اس نے سَر پر رنگ برنگی ٹوپی پہن رکھی تھی، جب وہ قریب آیا تو اس نے وہ ٹوپی اُتار دی، حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام نے پوچھا: تم کون ہو؟ وہ بولا: میں ابلیس ہوں۔ فرمایا: یہ ٹوپی جو تُو نے پہن رکھی تھی، یہ کیا ہے؟ بولا: یہ میرے وہ جال ہیں جو میں اَوْلادِ آدم پر ڈالتا ہوں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام نے پوچھا: یہ بتاؤ! وہ کونسی بُرائی ہے کہ جب آدمی وہ بُرائی کر لے تو تُو اس پر قابُو پا لیتاہے۔ شیطان بولا: جب آدمی خُودپسندی میں مبتلا ہو( یعنی خُود پر اِترا جائے ) اور اپنے گُنَاہوں کو بُھول جائے، تب میں اس پر غلبہ پا لیتا ہوں۔ (تنبیہ الغافلین،باب عداوۃ الشیطان و معرفۃ مکایدہ، صفحہ:346)
اللہ! اللہ! اس روایت سے معلوم ہوا کہ خود پسندی میں مبتلا ہو کر اپنے گُنَاہوں کو بُھول جانا شیطان کے جال میں پھنس جانے کا ایک سبب ہے۔ واقعی یہ حقیقت ہے، جب آدمی اپنے گُنَاہوں کو بُھول جاتا ہے تو وہ خُود پر اِترا جاتا ہے اور اللہ پاک کی خُفیہ تَدبیر سے بےخوف ہو کر مطمئن ہو جاتا ہے، اور یہ اطمینان اور بےخوفی وہ چیز ہے جو شیطان کا کام آسان کر دیتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنے گُنَاہوں کو اپنے پیشِ نظر رکھیں۔
مشہور مفسرِ قرآن، حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اپنی نیکیوں کو بُھول جانا اور گُنَاہوں کو یاد رکھنا عِبَادت ہے۔ (تفسیر نعیمی، پارہ:1، سورۂ بقرہ، زیرِ آیت:40، جلد:1، صفحہ:325ملتقطاً)
ہمارے ہاں اس کا اُلَٹ رِواج ہے،لوگ نیکیاں یاد رکھتے ہیں، گُنَاہ بُھول جاتے ہیں* ایک دِن کی پڑھی ہوئی تہجد یاد رہتی ہے، 50دِن کی قضا کی ہوئی نمازیں یاد نہیں ہوتیں*بعض لوگ بڑے فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں: اس بار میں نے رَمْضَانُ الْمُبارَک کے 10 روزے رکھے، کوئی انہیں بتائے کہ بھائی! آپ نے19 یا 20 روزے قضا کر دئیے! * مسجد میں دئیے ہوئے 10 رُوپے یاد رہتے ہیں، تجارت میں بے ایمانی کر کے کمائے ہوئے ہزار بُھول جاتے ہیں۔ یاد رکھئے! یہ سخت تشویش کی بات ہے، اپنے گُنَاہوں کو بُھول جانا دراصل شیطان کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ جب آدمی اپنے گُنَاہوں کو بُھول جاتا ہے تو شیطان اس پر غالِب آجاتا ہے۔ اس لئے اپنے گُنَاہوں کو ہمیشہ یاد رکھئے! یہ وہ ذریعہ ہے جس سے ہمارے دِل میں رِقَّت پیدا ہو گی، دِل میں اللہ پاک کا خوف آئے گا اور ہم رَبّ کریم کی پکڑ سے ڈر کر توبہ بھی کرتے رہیں گے اور آیندہ گُنَاہوں سے بچتے بھی رہیں گے۔
حضرت امام حسن بصری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ جو بہت بڑے وَلِیُّ اللہ تھے، آپ کی سیرت میں ہے کہ آپ سے بچپن میں ایک گُنَاہ ہو گیا تھا، حالانکہ نابالغ بچے کا گُنَاہ، شمار نہیں ہوتا، اس کے باوُجُود آپ نے اس گُنَاہ کو یاد رکھا، آپ کی عادت تھی کہ جب بھی نئے کپڑے سلواتے تو گریبان پر وہ گُنَاہ لکھ لیتے، پِھر اسے دیکھ دیکھ کر شرمندگی سے آنسو بہاتے رہتے تھے۔ (تذکرۃ الاولیاء، جز:1، صفحہ:39)
ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گُنَاہوں کو ہمیشہ یاد رکھیں، اور اللہ پاک کے عذاب سے، اس کی پکڑ سے ڈرتے رہا کریں ۔